Category «احمد فراز»

ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریباں میں ہے (احمد فراز)

ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریباں میں ہے کیا خبر تھی کہ بہار اس کے بھی ارمان میں ہے ایک ضرب اور بھی اے زندگیِ تیشہ بدست سانس لینے کی سکت اب بھی مری جاں میں ہے میں تجھے کھو کے بھی زندہ ہوں یہ دیکھا تو نے کس قدر حوصلہ ہارے …

قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے (احمد فراز)

قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لئے اب یہی ترکِ تعلق کے بہانے مانگے زندگی ہم ترے داغوں سے رہے شرمندہ …

تیری باتیں ہی سنانے آئے (احمد فراز)

تیری باتیں ہی سنانے آئے دوست بھی دل ہی دکھانے آئے پھُول کھِلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں تیرے آنے کے زمانے آئے ایسی کچھ چپ سی لگی ہے جیسے ہم تجھے حال سنانے آئے اب تو رونے سے بھی دل دُکھتا ہے شاید اب ہوش ٹھکانے آئے سو رہو موت کے پہلو میں فراز …

مِرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے (احمد فراز)

محاصرہ مِرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے کہ حلقہ زن ہیں مِرے گرد لشکری اس کے فصیلِ شہر کے ہر برج ہر منارے پر کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اُس کے وُہ برقِ لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی بچھا دیا گیا ہے بارود …

اجل سے خوف زدہ زیست سے ڈرے ہوئے لوگ (احمد فراز)

اجل سے خوف زدہ زیست سے ڈرے ہوئے لوگ کہ جی رہے ہیں میرے شہر میں مرے ہوئے لوگ یہ عجزِ خلق ہے یا قاتلوں کی دہشت ہے رواں دواں ہیں ہتھیلی پہ سر رکھے ہوئے لوگ نہ کوئی یاد ، نہ آنسو، نہ پھول ہیں نہ چراغ تو کیا دیارِ خموشاں سے بھی پرے …

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں (احمد فراز)

  اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں   یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں   زندگی تیری عطا تھی سو ترے نام کی ہے ہم نے جیسے بھی بسر کی ترا احساں جاناں   …

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں (احمد فراز)

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں سو اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے ستارے بامِ فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں …

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں (احمد فراز)

  اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں  جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں   ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں   غمِ دنیا بھی غمِ یار میں شامل کر لو نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں   …