Category «شاعری»

ہوا کے پردے میں کون ہے جو (افتخار عارف)

مکالمہ ہوا کے پردے میں کون ہے جو چراغ کی لو سے کھیلتا ہے کوئی تو ہو گا جو خلعتِ انتساب پہنا کے وقت کی رو سے کھیلتا ہے کوئی تو ہوگا حجاب کو رمزِ نور کہتا ہے اور پرتو سے کھیلتا ہے کوئی تو ہو گا کوئی نہیں ہے کوئی نہیں ہے یہ خوش …

دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو (افتخار عارف)

دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے مِرے مزاج کے سبھی موسموں کا ساتھی ہو میں اس کے ہاتھ نہ آؤں وہ میرا ہو کے رہے میں گِر پڑوں تو مری پستیوں کا ساتھی …

جب عمر کی نقدی ختم ہوئی (ابن انشاء)

جب عمر کی نقدی ختم ہوئی ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی ا ب ہم کو ادھار کی حاجت ہے ہے کوئی جو ساہو کار بنے ہے کوئی جو دیون ہار بنے کچھ سال ،مہینے، دن لوگو پر سود بیاج کے بن لوگو ہاں ا پنی جاں کے خزانے سے ہاں عمر کے توشہ …

اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے​ (ابن انشا)

اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے​ اس روپ کی رانی کی تصویر بنانی ہے​ ​ ہم اہل محبت کی وحشت کا وہ درماں ہے​ ہم اہل محبت کو آزار جوانی ہے​ ​ ہاں چاند کے داغوں کو سینے میں بساتے ہیں​ دنیا کہے دیوانا ۔۔۔ دنیا دیوانی ہے​ ​ اک بات …

ہجر و وصالِ یار کا پردہ اُٹھا دیا (فراق گورکھپوری)

ہجر و وصالِ یار کا پردہ اُٹھا دیا خود بڑھ کے عِشق نے مجھے میرا پتا دیا گرد و غُبارِ ہستیِ فانی اُڑا دیا اے کیمیائے عِشق مجھے کیا بَنا دیا وہ سامنے ہے اور نَظر سے چُھپا دیا اے عِشقِ بے حجاب مجھے کیا دِکھا دِیا وہ شانِ خامشی کہ بہاریں ہیں مُنتظر وہ …

دیتے ہیں جام شہادت مجھے معلوم نہ تھا (فراق گورکھپوری)

دیتے ہیں جام شہادت مجھے معلوم نہ تھا ہے یہ آئین محبت مجھے معلوم نہ تھا مطلب چشم مروت مجھے معلوم نہ تھا تجھ کو مجھ سے تھی شکایت مجھے معلوم نہ تھا چشم خاموش کی بابت مجھے معلوم نہ تھا یہ بھی ہے حرف و حکایت مجھے معلوم نہ تھا عشق بس میں ہے …

تُم تو چُپ رہنے کو بھی رنجشِ بے جا سمجھے (فراق گورکھپوری)

تُم تو چُپ رہنے کو بھی رنجشِ بے جا سمجھے درد کو درد نہ سمجھے تو کوئی کیا سمجھے جب تِری یاد نہ تھی، جب تِرا احساس نہ تھا ہم تو اُس کو بھی مُحبّت کا زمانہ سمجھے تیرے وارفتہء وحشت کی ہے دُنیا ہی کچھ اور وہ گُلستاں، نہ وہ زِنداں، نہ وہ صحرا …

ہوا ہے جیسے شہرہ اس عدوئے دین و ایماں کا (داغ دہلوی)

ہوا ہے جیسے شہرہ اس عدوئے دین و ایماں کا کوئی دل چیر کے دیکھے عقیدہ ہر مسلماں کا مزہ ہر ایک کو تازہ ملا ہے عشقِ جاناں کا نگہ کو دید کا ، لب کو فغاں کا ، دل کو ارماں کا نہیں معلوم اک مدت سے قاصد حال کچھ واں کا مزاج اچھا …

گو دل آزار ہو، اچھّوں کا خیال اچھّا ہے (داغ دہلوی)

گو دل آزار ہو، اچھّوں کا خیال اچھّا ہے سو بَلاؤں سےپِھر ارمانِ وِصال اچھّا ہے یہ تِری چشمِ فسوں گر میں کمال اچھّا ہے ایک کا حال بُرا، ایک کا حال اچھّا ہے تاک کر دِل کو وہ فرماتے ہیں! مال اچھّا ہے؟ یہ خُدا کی قسم اندازِ سوال اچھّا ہے رُو سیاہی خطِ …

غضب ہے جس کو وہ کافر نگاہ میں رکھے (داغ دہلوی)

غضب ہے جس کو وہ کافر نگاہ میں رکھے خدا نگاہ سے اُس کی پناہ میں رکھے برا ہوں میں تو مجھے رکھیے اپنے پیش نظر برے کو چاہیے انسان نگاہ میں رکھے پہنایا ہار گلے کا پھر اس پہ یہ طرہ کہ پھول غیر کے تم نے کلاہ میں رکھے جو شیخ دیکھ لے …