اب ترے رُخ پر محبت کی شفق پھولی تو کیا (احمد ندیم قاسمی)

اب ترے رُخ پر محبت کی شفق پھولی تو کیا حسن بر حق ہے ، مگر جب بجھ چکا ہو جی تو کیا جب ترا کہنا ہے ، تو تقدیر کا محکوم ہے تُو نے نفرت کی تو کیا، تُو نے محبت کی تو کیا اب کہاں سے لاؤں وہ آنکھیں جو لذت یاب ہوں …

کیسی وفا و اُلفت، کھاتے عبث ہو قسمیں (میر تقی میر)

کیسی وفا و اُلفت، کھاتے عبث ہو قسمیں مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری رسمیں ساون تو اب کے ایسا برسا نہیں، جو کہیے روتا رہا ہوں میں ہی دن رات اس برس میں گھبرا کے یوں لگے ہے سینے میں دل تڑپنے جیسے اسیرِ تازہ بے تاب ہو قفس میں جاں کاہ …

یارنے ہم سے بے ادائی کی(میر تقی میر)

یار نے ہم سے بے ادائی کی  وصل کی رات میں لڑائی کی  بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ  اب توقع نہیں رہائی کی  کلفت رنج عشق کم نہ ہوئی  میں دوا کی بہت شفائی کی  طرفہ رفتار کے ہیں رفتہ سب  دھوم ہے اس کی رہ گرائی کی  خندۂ یار سے طرف …

بیٹھا ہوں جوں غبار ضعیف اب وگرنہ میں (میر تقی میر)

بیٹھا ہوں جوں غبار ضعیف اب وگرنہ میں پھرتا رہا ہوں گلیوں میں آوارہ گرد سا قصدِ طریقِ عشق کیا سب نے بعد قیس لیکن ہوا نہ ایک بھی اُس رہ نورد سا کیا میر ہے یہی جو ترے در پہ تھا کھڑا نم ناک چشم و خشک لب و رنگ زرد سا کس شام …

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا (میر تقی میر)

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا  لوہو آتا ہے جب نہیں آتا ہوش جاتا نہیں رہا لیکن  جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا صبر تھا ایک مونس ہجراں  سو وہ مدت سے اب نہیں آتا دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش  گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا عشق کو حوصلہ ہے شرط ورنہ  بات …

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے ( میر تقی میر)

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے لگنے نہ دے بس ہو تو اس کے گوہر گوش کا بالے تک اس کو فلک چشمِ مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے چارہ گری بیمارئ دل کی رسمِ شہرِ حسن نہیں …

بارہا گورِ دل جھنکا لایا (میر تقی میر)

بارہا گورِ دل جھنکا لایا اب کے شرطِ وفا بجا لایا قدر رکھتی نہ تھی متاعِ دل سارے عالَم میں مَیں دِکھا لایا دل کہ اِک قطرہ خوُں نہیں ہے بیش ایک عالم کے سر بلا لایا سب پہ جس بار نے گرانی کی اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا دل مجھے اُس گلی میں …

محبت میں کیا کیا مقام آرہے ہیں (جگر مراد آبادی)

محبت میں کیا کیا مقام آرہے ہیں کہ منزل پہ ہیں اور چلے جارہے ہیں یہ کہہ کہہ کے ہم دل کو بہلا رہے ہیں وہ اب چل چکے ہیں وہ اب آرہے ہیں وہ از خود ہی نادم ہوئے جارہے ہیں خدا جانے کیا کیا خیال آرہے ہیں ہمارے ہی دل سے مزے ان …

آدمی آدمی سے ملتا ہے (جگر مراد آبادی)

آدمی آدمی سے ملتا ہے دل مگر کم کسی سے ملتا ہے بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے سلسلہ فتنۂ …

جو اب بھی نہ تکلیف فرمائیے گا (جگر مراد آبادی)

جو اب بھی نہ  تکلیف فرمائیے گا تو بس ہاتھ ملتے ہی رہ جائیے گا نگاہوں سے چھپ کر کہاں جائیے گا جہاں جائیے گا، ہمیں پائیے گا ہمیں جب نہ ہوں گے تو کیا رنگِ محفل کسے دیکھ کر آپ شرمائیے گا مرا جب برا حال سن پائیے گا خراماں خراماں، چلے آئیے گا …