نفس کی زد پہ ہر اک شعلۂ تمنا ہے (تابش دہلوی)
نفس کی زد پہ ہر اک شعلۂ تمنا ہے ہوا کے سامنے کس کا چراغ جلتا ہے ترا وصال تو کس کو نصیب ہے لیکن ترے فراق کا عالم بھی کس نے دیکھا ہے ابھی ہیں قرب کے کچھ اور مرحلے باقی کہ تجھ کو پا کے ہمیں پھر تری تمنا ہے
اردوکےمشہورشعئرا اور ان کاکلام
نفس کی زد پہ ہر اک شعلۂ تمنا ہے ہوا کے سامنے کس کا چراغ جلتا ہے ترا وصال تو کس کو نصیب ہے لیکن ترے فراق کا عالم بھی کس نے دیکھا ہے ابھی ہیں قرب کے کچھ اور مرحلے باقی کہ تجھ کو پا کے ہمیں پھر تری تمنا ہے
سر ہی اب پھوڑیے ندامت میںنیند آنے لگی ھے فرقت میں ھیں دلیلیں تیرے خلاف مگرسوچتا ھُوں تیری حمایت میں رُوح نے عشق کا فریب دیاجسم کو جسم کی عداوت میں اب فقط عادتوں کی ورزش ھےرُوح شامل نہیں شکایت میں عشق کو درمیاں نہ لاؤ کہ میںچیختا ھُوں بدن کی عسرت میں یہ کچھ …
جو چَل سکو، تو کوئی ایسی چال چَل جانامجھے گُماں بھی نہ ہو، اور تم بدل جانا یہ شُعلگی ہو بَدن کی، تو کیا کیا جائےسو لازمی تھا تِرے پیرَہَن کا جَل جانا تمھیں کرو کوئی درماں، یہ وقت آ پہنچاکہ اب تو چارہ گروں کو بھی ہاتھ مَل جانا ابھی ابھی تو جُدائی کی …
زعمِ وَفا بھی ہے ہَمَیں عِشقِ بُتاں کے ساتھاُبھریں گے کیا، کہ ڈُوبے ہیں سنگِ گراں کے ساتھ تنہائیوں کے کیف سے نا آشنا نہیں !وابستگی ضرُور ہے بزمِ جہاں کے ساتھ اے چشمِ تر سفِینۂ دِل کی تھی کیا بِساطساحِل نَشِیں بھی بہہ گئےسَیلِ رَواں کے ساتھ اُن ساعتوں کی یاد سے مہکا ہُوا …
آدابِ چَمن بدل رہے ہیںصحرا میں گُلاب پَل رہے ہیںدُنیا کی حقیقتیں وہی ہیںاندازِ نظر بدل رہے ہیںآمد ہے کِس اَسیرِ نَو کیزنداں میں چراغ جَل رہے ہیںہمّت نے جواب دے دیا ہےدیوانے پھر بھی چَل رہے ہیںہونٹوں پہ ہنسی اور آنکھ پُرنمپانی سے چراغ جَل رہے ہیںآشائیں غرُوب ہو رہی ہیںاُمید کے سائے ڈھل …
پاگل پن اِک پردہ کالی مخمل کا آنکھوں پر چھانے لگتا ہے اک بھنور ہزاروں شکلوں کا دل کو دہلانے لگتا ہے اک تیز حنائی خوشبو سے ہر سانس چمکنے لگتا ہے اک پھول طلسمی رنگوں کا گلیوں میں دمکنے لگتا ہے سانپوں سے بھرے اک جنگل کی آواز سنائی دیتی ہے ہر اینٹ مکانوں …
دکھ کی بات بچھڑ گئے تو پھر بھی ملیں گے ہم دونوں اِک بار یا اِس بستی دنیا میں یا اِس کی حدوں سے پار لیکن غم ہے تو بس اتنا جب ہم وہاں ملیں گے ایک دوسرے کو ہم کیسے تب پہچان سکیں گے یہی سوچتے اپنی جگہ پر چُپ چُپ کھڑے رہیں گے …
شہ نشینوں پر شہ نشینوں پر جھکے ہیں رنگ میں بھیگے سحاب بہہ رہی ہے کُو بہ کُو ان تیز آنکھوں کی شراب اک نسائی سانس کی خوشبوؤں میں لپٹا ہوا کتنا پُر اسرار لگتا ہے یہ ماہِ نیم تاب
خواب گاہ سامنے ہے اِک تماشائے بہارِ جاں ستاں جا بہ جا بکھری ہوئی خوشبو کی شیشیاں نیم وا ہونٹوں پہ سرخی کے مدھم نشاں ریشمی تکیے میں پیوست اس کی انگلیاں دیکھ اے دل، شوق سے یہ آرزو کا کارواں رنگ و بو کے سلسلے، لعل و گہر کی وادیاں پھر نہ جانے تو …
پھیلتی ہے شام دیکھو ڈوبتا ہے دن عجب آسماں پر رنگ دیکھو ہو گیا کیسا غضب کھیت ہیں اور ان میں اک روپوش سے دشمن کا شک سرسراہٹ سانپ کی گندم کی وحشی گر مہک اک طرف دیوار و در اور جلتی بجھتی بتیاں اک طرف سر پر کھڑا یہ موت جیسا آسماں دشمنوں