شرمندہ انہیں اور بھی اے میرے خدا کر (قتیل شفائی)

شرمندہ انہیں اور بھی اے میرے خدا کر دستار جنہیں دی ہے انہیں سر بھی عطا کر لوٹا ہے سدا جس نے ہمیں دوست بنا کر ہم خوش ہیں اسی شخص سے پھر ہاتھ ملا کر ڈر ہے کہ نہ لے جائے وہ ہم کو بھی چرا کر ہم لائے ہیں گھر میں جسے مہمان …

چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال (قتیل شفائی)

چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال اک تو ہی دھنوان ہے گوری ، باقی سب کنگال ہر آنگن میں سجے نہ تیرے اجلے روپ کی دھوپ چھیل چھبیلی رانی تھوڑا گھونگھٹ اور نکال بھر بھر نظریں دیکھیں تجھ کو آتے جاتے لوگ دیکھ تجھے بدنام نہ کر دے ہرنی جیسی چال بیچ میں …

؛یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا (مرزا غالب)

؛یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا تِرے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا کوئی میرے دل سے پوچھے تِرے تیرِ نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا …

یک ذرّہ زمیں نہیں بیکار، باغ کا(مرزا غالب)

یک ذرّہ زمیں نہیں بیکار، باغ کا یاں جادہ بھی، فتیلہ ہے لالے کے داغ کا بے مے ، کسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہائے گل کہتے ہیں جس کو عشق، خلل ہے دماغ کا تازہ نہیں ہے نشۂ فکرِ سخن مجھے …

ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور (مرزا غالب)

ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ وہ سمجھیں گے مِری بات دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اٹھیں گے لے آئیں گے …

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے (مرزا غالب

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے مرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے نکلنا خُلد سے آدم کا تو سنتے آئے ہیں لیکن بہت بے آبرو ہو کر تِرے کوچے سے ہم نکلے ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی وہ ہم سے بھی زیادہ خستئہ تیغِ ستم …

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے (مرزا غالب)

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے جوشِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے پھر چاہتا ہوں نامئہ دل دار کھولنا جاں نذرِ دل فریبیِ عنواں کیے ہوئے پھر جی میں ہے در پہ کسی کے پڑے رہیں سر زیر بارِ منتِ درباں کیے ہوئے جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن …

کہتے ہو نہ دیں گے ہم ، دل اگر پڑا پایا (مرزا غالب)

کہتے ہو نہ دیں گے ہم ، دل اگر پڑا پایا دل کہاں کہ گم کیجے، ہم نے مدعا پایا عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا درد کی دوا پائی ، دردِ بے دوا پایا دوستدارِ دشمن ہے ، اعتمادِ دل معلوم! آہ بے اثر دیکھی ، نالہ نارسا پایا سادگی و پُرکاری …

غیر لیں محفل میں بوسے جام کے (مرزا غالب)

غیر لیں محفل میں بوسے جام کے ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے خستگی کا تم سے کیا شکوہ کہ یہ ہتکھنڈے ہیں چرخ نیلی فام کے خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے رات پی زمزم پہ مے اور صبح دم دھوئے دھبے جامۂ احرام …

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں (مرزا غالب)

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیں لیکں اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو …