درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے (مرزا غالب)

درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے  کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ  تو نے پھر کیوں کی تھی میری غم گساری ہائے ہائے کیوں مری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال  دشمنی اپنی تھی میری دوست داری …

تمہیں ‌جفا سے نہ یوں‌ باز آنا چاہئے تھا (پیر زادہ قاسم)

تمہیں ‌جفا سے نہ یوں‌ باز آنا چاہئے تھا  ​ ابھی کچھ اور میرا دل دُکھانا چاہئے تھا​ طویل رات کے پہلو میں کب سے سوئی ہے​ نوائے صبح تُجھے جاگ جانا چاہئے تھا​ بہت قلق ہوا حیرت زدہ طوفانوں کو​ کہ کون ڈُوبے کہیں ‌ڈوب جانا چاہئے تھا​ بُجھے چراغوں میں کتنے ہیں ‌جو …

زخم دبے تو پھر نیا تیر چلا دیا کرو (پیر زادہ قاسم)

زخم دبے تو پھر نیا تیر چلا دیا کرو دوستو اپنا لطف خاص یاد دلا دیا کرو ایک علاج دائمی ہے تو برائے تشنگی پہلے ہی گھونٹ میں اگر زہر ملا دیا کرو شہر طلب کرے اگر تم سے علاج تیرگی صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو مقتل غم کی رونقیں ختم نہ ہونے …

سانحہ نہیں ٹلتا سانحے پہ رونے سے (پیر زادہ قاسم)

سانحہ نہیں ٹلتا سانحے پہ رونے سے حبسِ جاں نہ کم ہو گا بے لباس ہونے سے اب تو میرا دشمن بھی میری طرح روتا ہے کچھ گلے تو کم ہوں گے ساتھ ساتھ رونے سے متنِ زیست تو سارا بے نمود لگتا ہے دردِ بے نہایت کا حاشیہ نہ ہونے سے سچے شعروں کا …

پرے سے دیکھو تو صرف خوشبو (منیر نیازی)

طلسمات پرے سے دیکھو تو صرف خوشبو ، قریب جاؤ تو اک نگر ہے طلسمی رنگوں سے بھیگتے گھر ، نسائی سانسوں سے بند گلیاں خموش محلوں میں خوبصورت طلائی شکلوں کی رنگ رلیاں کسی دریچے کی چِق کے پیچھے دہکتے ہونٹوں کی سرخ کلیاں پرے سے تکتی ہر اِک نظر اُس نگر کی راہوں …

کبھی چمکتے ہوئے چاند کی طرح روشن (منیر نیازی)

کبھی چمکتے ہوئے چاند کی طرح روشن کبھی طویل شبِ ہجر کی طرح غمگیں شعاعِ لعل و حنا کی طرح مہکتی ہوئیں کبھی سیاہئی کوہِ ندا میں پردہ نشیں سنبھل کے دیکھ طلسمات اُن نگاہوں کا دلِ تباہ کی رنگین پناہوں کا

اور ہیں کتنی منزلیں باقی (منیر نیازی)

اور ہیں کتنی منزلیں باقی جان کتنی ہے جسم میں باقی زندہ لوگوں کی بود و باش میں ہیں مردہ لوگوں کی عادتیں باقی اس سے ملنا وہ خواب ہستی میں خواب معدوم حسرتیں باقی بہہ گئے رنگ و نور کے چشمے رہ گئیں ان کی رنگتیں باقی جن کے ہونے سے ہم بھی ہیں …

نگہت کی آنکھوں میں گہرے رازوں کی (منیر نیازی)

چُور دروازے نگہت کی آنکھوں میں گہرے رازوں کی کچھ باتیں ہیں سات سمندر پار کے شہروں کی کالی برساتیں ہیں دیواروں سے لپٹ لپٹ کر رونے والی راتیں ہیں نگہت کے بکھرے بالوں میں سُکھ کا خزانہ ملتا ہے دل کو عجب خیالوں میں رہنے کا بہانہ ملتا ہے ایک گلابی پھول مہک کے …