Monthly archives: November, 2019

نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں (ناصر کاظمی)

نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں آرزو ہے کہ تُو یہاں آئے اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد آج کا دن گزر نہ جائے کہیں نہ مِلا کر اداس لوگوں سے حُسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں آؤ …

فکر تعمیر آشیاں بھی ہے (ناصر کاظمی)

فکر تعمیر آشیاں بھی ہے خوف بے مہری خزاں بھی ہے خاک بھی اڑ رہی ہے رستوں میں آمد صبح کا سماں بھی ہے رنگ بھی اڑ رہا ہے پھولوں کا غنچہ غنچہ شرر فشاں بھی ہے اوس بھی ہے کہیں کہیں لرزاں بزم انجم دھواں دھواں بھی ہے کچھ تو موسم بھی ہے خیال …

کون اس راہ سے گزرتا ہے (ناصر کاظمی)

کون اس راہ سے گزرتا ہے دل تو یونہی انتظار کرتا ہے دیکھ کر بھی نہ دیکھنے والے دل تجھے دیکھ دیکھ ڈرتا ہے شہرِ گل میں کٹی ہے ساری رات دیکھیے دن کہاں گزرتا ہے دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر کوئی چپکے سے پاؤں دھرتا ہے دل تو میرا اداس ہے ناصر شہر …

کچھ یادگارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں (ناصر کاظمی)

کچھ یادگارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پا س ہو تھوڑی سی خاکِ کوچئہ دلبر ہی لے چلیں یہ کہہ کے …

دل میں اِک لہر سی اتھی ہے ابھی (ناصر کاظمی)

دل  میں اِک لہر سی اتھی ہے ابھی کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی شور برپا ہے خانئہ دل میں کوئی دیوار سی گری ہے ابھی بھری دُنیا میں جی نہیں لگتا جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی اور کچھ چوٹ بھی نئی ہے ابھی تم تو …

ترے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی (ناصر کاظمی)

ترے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لیے یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا کہ …

اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی (ناصر کاظمی)

اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں، تُو اپنے ہونٹ سی کن بے دلوں میں پھینک دیا حادثات نے آنکھوں میں جن کے نُور، نہ باتوں میں تازگی بول اے مرے دیار کی سوئی ہوئی زمیں میں جن کو ڈھونڈتا ہوں کہاں ہیں وہ آدمی؟ میٹھے تھے جن …

آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے (ناصر کاظمی)

آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے خامُشی طرزِ ادا چاہتی ہے آج پھر وسعتِ صحرائے جنوں پرسشِ ابلہ پا چاہتی ہے دیکھ کیفیتِ طوفانِ بہار بوئے گل رنگ ہوا چاہتی ہے دل میں اب خارِ تمنا بھی نہیں زندگی برگ و نوا چاہتی ہے اک ہمیں بارِ چمن ہیں ورنہ غنچے غنچے کو صبا چاہتی …

آپ جن کے قریب ہوتے ہیں (نوح ناروی)

آپ جن کے قریب ہوتے ہیں وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں جب طبیعت کسی پر آتی ہے موت کے دن قریب ہوتے ہیں مجھ سے ملنا پھر آپ کا ملنا آپ کس کو نصیب ہوتے ہیں ظلم سہ کر بھی جو اف نہیں کرتے ان کے دل بھی عجیب ہوتے ہیں عشق میں اور …

ہوا نادم میں حالِ دل سنا کر (نظام رامپوری)

ہوا نادم میں حالِ دل سنا کر جو اس نے مجھ کو دیکھا مسکرا کر نہ پوچھو میرے آنے کا سبب تم میں خود حیراں ہوں اس محفل میں ا کر مِری سی باتیں واں کرتے ہیں اغیار مِری دو چار باتیں سن سنا کر تم ایسے کس لیے مغرور ہوتے غضب ہم نے کیا …