Monthly archives: November, 2019

نامہ بر سچ کہو وہ کہتے تھے یاں آنے کو (نظام رامپوری)

نامہ بر سچ کہو وہ کہتے تھے یاں آنے کو یا یہ کہتا ہے یوں ہی تو مِرے بہلانے کو ہے یہی شکر کہ اتنا تو لحاظ ان کو ہوا ہوئے دشمن سے خفا گو مِرے دکھلانے کو اس رکاوٹ کا سبب وصل میں پھر کیا ہے مگر آگے دشمن کے رہے بات قسم کھانے …

مجھ سے ملنا تو کسی ڈھب انہیں منظور نہیں (نظام رامپوری)

مجھ سے ملنا تو کسی ڈھب انہیں منظور نہیں ہے یہی شکر کہ یہ بات بھی مشہور نہیں گاہے گاہے بھی یہ ملنا ہے غنیمت اس کا حُسن پر اپنے  وہ ایسا بھی مغرور نہیں مجھ سے ہاں آپ کو الفت ہے سمجھتا ہوں میں کچھ میں نادان نہیں ، عقل سے معذور نہیں کبھی …

خیر یوں ہی سہی تسکیں ہو کہیں تھوڑی سی (نظام رامپوری)

خیر یوں ہی سہی تسکیں ہو کہیں تھوڑی سی “ہاں” تو کہتے ہو مگر ساتھ “نہیں” تھوڑی سی حالِ دل سن کے مِرا بر سرِ رحمت تو ہیں کچھ ابھی باقی ہے مگر چینِ جبیں تھوڑی سی ہوئی جاتی ہے سحر ایسا بھی گھبرانا کیا رات اگر ہے بھی تو اے ماہ جبیں! تھوڑی سی …

آپ کہتے ہیں مجھے ” شکوۃ بے جا ہے تمہیں” (نظام رامپوری)

آپ کہتے ہیں مجھے ” شکوۃ بے جا ہے تمہیں” میں جو کہتا ہوں وہی غیر بھی کہتا ہے تمہیں ان جفاؤں کی ندامت بھی تمہیں کو ہوگی مہرباں بھی تو کبھی بندے پہ ہونا ہے تمہیں مجھے امیدِ وفا تم سے ، تمہیں دشمن سے یہ اگر خبط ہے تو مجھ سے زیادا ہے …

غیر سے کہتے ہیں وہ میرے ستانے کے لیے (نظام رامپوری)

غیر سے کہتے ہیں وہ میرے ستانے کے لیے ڈھونڈ لیں گے ہم بھی کوئی دل لگانے کے لیے کچھ خبر بھی ہے تمہیں اپنے مریضِ عشق کی یاد ہے کہتا تھا کوئی زہر کھانے کے لیے کس کی باتوں سے تمہارا بزم میں رکتا ہے دل یہ اشارے ہیں فقط میرے اٹھانے کے لیے …

اس بھرے شہر میں کوئی ایسا نہیں (اخترالایمان)

 تبدیلی اس بھرے شہر میں کوئی ایسا نہیں جو مجھ راہ چلتے کو پہچان لے اور اواز دے ” اوئے سر پھرے” دونوں ایک دوسرے سے لپٹ کر وہیں گرد و پیش اور ماحول کو بھول کر گالیاں دیں، ہنسیں، ہاتھا پائی کریں .پاس کے پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ کر گھنٹوں ایک دوسرے کی …

شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقتِ رواں (اخترالایمان)

بے تعلقی شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقتِ رواں جو کبھی سنگِ گراں بن کے میرے سر پہ گرا راہ میں آیا کبھی میری ہمالہ بن کر جو کبھی عقدہ بنا ایسا کہ حل ہی نہ ہوا اشک بن کر میری آنکھوں سے کبھی ٹپکا ہے جو کبھی خونِ جگر بن کے مژہ …

تمہارے لہجے میں جو گرمی و حلاوت ہے (اخترالایمان)

بنتِ لمحات تمہارے لہجے میں جو گرمی و حلاوت ہے اسے بھلا سا کوئی نام دو وفا کی جگہ غنیمِ نور کا حملہ کہو اندھیروں پر دیارِ درد میں آمد کہو مسیحا کی رواں دواں ہوئے خوشبوؤں کے قافلے ہر سو خلائے صبح میں گونجی سحر کی شہنائی یہ اِک کہرا سا،  یہ دھند سی …

نگر نگر کے دیس دیس کے پربت ٹیلے اور بیاباں (اخترالایمان)

بلاوا نگر نگر کے دیس دیس کے پربت ٹیلے اور بیاباں ڈھونڈ رہے ہیں اب تک مجھ کو کھیل رہے ہیں میرے ارماں میرے سپنے میرے آنسو ان کی چھلنی چھاؤں میں جیسے دھوپ میں بیٹھے کھیل رہے ہوں بالک باپ سے روٹھے روٹھے! دن کے اجالے سانجھ کی لالی رات کے اندھیارے سےکوئی مجھ …

میں جب طفلِ مکتب تھا، ہر بات (اخترالایمان)

آگہی میں جب طفلِ مکتب تھا، ہر بات، ہر فلسفہ جانتا تھا کھڑے ہو کے منبر پہ پہروں سلاطینِ پارین و حاضر حکایاتِ شیریں و تلخ ان کی، ان کے درخشاں جرائم  جو صفحاتِ تاریخ پر کارنامے ہیں، ان کے اوامر نواہی حکیموں کے اقوال، دانا خطیبوں کے خطبے جنہیں مستمندوں نے باقی رکھا اس …