Monthly archives: December, 2019

ہوا ہے بیخودی کے کوچے میں جب سے گزر اپنا (اکبر الہ آبادی)

ہوا ہے بیخودی کے کوچے میں جب سے گزر اپنا نگاہِ شوق سے میں خود ہوں منظورِ نظر اپنا تردد کچھ نہیں ایذا دہندوں کو رسائی میں تمنا بے تکلف دل میں کر لیتی ہے گھر اپنا حباب آسا اٹھایا بحرِ ہستی میں جو سر اپنا بنایا بس وہیں موجِ فنا نے ہمسفر اپنا عروجِ …

اس کی خوشبو میری غزلوں میں سمٹ آئی ہے (اقبال اشعر)

اس کی خوشبو میری غزلوں میں سمٹ آئی ہے نام کا نام ہے رسوائی کی رسوائی ہے دل ہے اک اور دو عالم کا تمنائی ہے دوست کا دوست ہے، ہرجائی کا ہرجائی ہے ہجر کی رات ہے اور ان کے تصور کا چراغ بزم کی بزم ہے، تنہائی کی تنہائی ہے کون سے نام …

اس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا (افتخار نسیم)

اس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا آسماں پہ چاند پورا تھا مگر آدھا لگا جس گھڑی آایا پلٹ کر اک میرا بچھڑا ہوا عام سے کپڑوں میں تھا وہ پھر بھی شاہزادہ لگا ہر گھڑی تیار ہے دل جاں دینے کے لیے اس نے پوچھا بھی نہیں یہ پھر بھی آمادہ لگا …

یہی نہیں کہ فقط پیار کرنے آئے ہیں (آغا نثار)

یہی نہیں کہ فقط پیار کرنے آئے ہیں ہم اک عمر کا تاوان بھرنے آئے ہیں وہ اک رنگ مکمل ہو جس سے تیرا وجود وہ رنگ ہم تیری شاخ میں بھرنے آئے ہیں ٹھٹھر نہ جائیں ہم اس عجز کی بلندی پر ہم اپنی سطح سے نیچے اترنے آئے ہیں لگا رہے ہیں ابھی …

خدا کا شکر سہارے بغیر بیت گئی (انور شعور)

خدا کا شکر سہارے بغیر بیت گئی ہماری عمر تمہارے بغیر بیت گئی ہوئی نہ شمع فروزاں کوئی اندھیرے میں شبِ فراق ستارے بغیر بیت گئی وہ زندگی جو گزارے نہیں گزرتی تھی تیرے طفیل گزارے بغیر گزر گئی شعور تیز رہی زندگی کی دوڑ اتنی کہ ہار جیت شمارے بغیر گزر گئی

اک کربِ مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں (آنس معین)

اک کربِ مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں مقتل میں ہیں جینے کی سزا دیں تو کسے دیں پتھر ہیں سبھی لوگ کریں بات تو کس سے اس شہرِ خموشاں میں صدا دیں تو کسے دیں ہے کون کہ جو خود کو ہی جلتا ہوا دیکھے سب ہاتھ ہیں کاغذ کے دیا دیں تو …

کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق (میر تقی میر)

کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق جاں کا روگ ہے بلا ہے عشق عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق عشق ہے طرز و طور عشق کے تیں کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق عشق معشوق عشق عاشق ہے یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق گر …

ایک رقاصہ تھی کس کس سے اشارے کرتی (احمد ندیم قاسمی)

ایک رقاصہ تھی کس کس سے اشارے کرتی آنکھیں پتھرائیں اداؤں میں توازن نہ رہا ڈگمگائی تو سب طرف سے آواز آئی فن کے اس اوج پہ تیرے سوا کون گیا فرشِ مرمر پہ گری گر کے اٹھی اٹھ کے جھکی خشک ہونٹوں پہ زباں پھیر کے پانی مانگا اوک اٹھائی تو تماشائی سنبھل کر …

طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے (منظر بھوپالی)

طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے عکس پر نہ اتراؤ آئینہ ہمارا ہے آپ کی غلامی کا، بوجھ ہم نہ ڈھوئیں گے آبرو سے مرنے کا فیصلہ ہمارا ہے عمر بھر تو کوئی بھی جنگ لڑ نہیں سکتا تم بھی ٹوٹ جاؤ گے تجربہ ہمارا ہے اپنی رہنمائی پر اب غرور مت کرنا آپ …

دلِ وحشی تجھے اک بار پھر زنجیر کرنا ہے (اسعد بدایونی)

دلِ وحشی تجھے اک بار پھر زنجیر کرنا ہے کہ اب اس سے ملاقاتوں میں کچھ تاخیر کرنا ہے مرے پچھلے بہانے اس پہ روشن ہوئے جاتے ہیں سو اب مجھ کو نیا حیلہ نئی تدبیر کرنا ہے کماں داروں کو اس سے کیا غرض کہ پہنچے کہ رہ جائے انہیں تو بس اشارے پر …