Monthly archives: December, 2019

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور (مرزا غالب)

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور مٹ جائے گا سر، گر ترا پتھر نہ گھسے گا ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور آتے ہو کل، اور آج ہی کہتے ہو کہ جاؤں مانا کہ نہیں، اچھا، کوئی دن اور جاتے …

اک ہی مژدہ صبح لاتی ہے (جون ایلیا)

اک ہی مژدہ صبح لاتی ہے دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے رنگِ موسم ہے اور بادِ صبا شہر کوچوں میں خاک اڑاتی ہے فرش پر کاغذ اڑتے پھرتے ہیں میز پر گرد جمتی جاتی  ہے سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر اب کسے رات بھر جگاتی ہے میں بھی اذنِ نوا گری چاہوں …

آنکھ تمہاری مست بھی ہے اور مستی کا پیمانہ بھی (ساغر نظامی)

آنکھ تمہاری مست بھی ہے اور مستی کا پیمانہ بھی ایک چھلکتے ساغر میں مے بھی ہے میخانہ بھی بے خودئ دل کا کیا کہنا سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں ہستی سے مانوس بھی ہوں ہستی سے بیگانہ بھی حسن نے تیرے دنیا میں کیسی آگ لگا دی ہے برق بھی شعلہ برپا …

عشق کے علاقے میں (امجد اسلام امجد)

عشق کے علاقے میں حُکمِ یار چلتا ھے ضابطے نہیں چلتے حُسن کی عدالت میں عاجزی تو چلتی ھے مرتبے نہیں چلتے دوستی کے رشتوں کی پرورش ضروری ھے سِلسلے تعلق کے خود سے بن تو جاتے ھیں لیکن اِن شگوفوں کو ٹُوٹنے بکھرنے سے روکنا بھی پڑتا ھے چاھتوں کی مٹی کو آرزو کے …

حساب عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے (امجد اسلام امجد)

حساب عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے. تمہیں نکال کہ دیکھا تو سب خسارہ ہے. کس چراغ میں ہم ہیں کسی کنول میں تم. کہیں جمال ہمارا کہیں تمہارا ہے. وہ کیا وصل کا لمحہ تھا جس کے نشے میں. تمام عمر کی فرقت ہمیں گوارہ ہے. ہر اک صدا جو ہمیں بازگشت لگتی ہے. …

جو اتر کے زینۂِ شام سے تیری چشم ِخوش میں سما گئے(امجد اسلام امجد)

جو اتر کے زینۂِ شام سے تیری چشم ِخوش میں سما گئے وہی جلتے بجھتے سے مہر و ماہ میرے بام و در کو سجا گئے یہ عجیب کھیل ہے عشق کا میں نے آپ دیکھا یہ معجزہ وہ جو لفظ میرے گماں میں تھے وہ تیری زبان پر آگئے وہ جو گیت تم نے …

آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا​ (امجد اسلام امجد)

آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا​ وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا​ ​ کچھ دن تو میرا عکس رہا آئینے پہ نقش​ پھر یوں ہوا کہ خود مرا چہرہ بدل گیا​ ​ جب اپنے اپنے حال پہ ہم تم نہ رہ سکے​ تو کیا ہوا جو ہم سے زمانہ بدل …

مل ہی آتے ہیں اسے ایسا بھی کیا ہو جائے گا (احمد مشتاق)

مل ہی آتے ہیں اسے ایسا بھی کیا ہو جائے گا بس یہی ناں درد کچھ دل کا سوا ہو جائے گا وہ مِرے دل کی پریشانی سے افسردہ ہو کیوں دل کا کیا ہے کل کو پھر اچھا بھلا ہو جائے گا​ گھر سے کچھ خوابوں سے ملنے کیلیے نکلے تھے ہم کیا خبر …

مِرا ہی رنگ پریدہ ہر اک نظر میں رہا (احمد فراز)

مِرا ہی رنگ پریدہ ہر اک نظر میں رہا وگرنہ درد کا موسم تو شہر بھر میں رہا کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا کچھ اس طرح سے گزری ہے زندگی جیسے تمام عمر کسی دوسرے کے گھر میں رہا وداعِ یار کا منظر …

تشنگی آنکھوں میں ، اور دریا خیالوں میں رھے (احمد فراز)

تشنگی آنکھوں میں ، اور دریا خیالوں میں رھے ھم نَوا گر خوش رھے ، جیسے بھی حالوں میں رھے اِس قدر دنیا کے دُکھ ، اے خُوبصُورت زندگی جس طرح تتلی کوئی ، مَکڑی کے جالوں میں‌ رھے دیکھنا اے راہ نوردِ شوق ، کُوئے یار تک کچھ نہ کچھ رنگِ حِنا ، پاؤں …