Monthly archives: December, 2019

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں (مرزا غالب)

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہزار بار کوئی ہمیں رلائے کیوں دیر نہیں حرم نہیں ، در نہیں آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیر ہمیں اٹھائے کیوں جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز آپ ہی ہو نظارہ سوز …

دل سے تِری نگاہ جگر تک اتر گئی (مرزا غالب)

دل سے تِری نگاہ جگر تک اتر گئی دونوں کو اک ادا میں رضا مند کر گئی وہ بادۃ شبانہ کی سرمستیاں کہاں اٹھیے بس اب کہ لذتِ  خوابِ سحر گئی اڑتی پھرتی ہے خاک مِری کوئے یار میں بارے اب اے ہوا ہوسِ بال و پر گئی دیکھو تو دلفریبیِ اندازِ نقشِ پا موجِ …

درد منت کشِ دوا نہ ہوا (مرزا غالب)

درد منت کشِ دوا نہ ہوا میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو اک تماشہ ہوا گلہ نہ ہوا کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا ہے خبر گرم ان کے آنے کی آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا جان دی …

پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا​ (مرزا غالب)

پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا​ دل، جگر تشنۂ فریاد آیا​ ​ دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز​ پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا​ ​ سادگی ہائے تمنا، یعنی​ پھر وہ نیرنگِ نظر یاد آیا​ ​ عذرِ واماندگی، اے حسرتِ دل!​ نالہ کرتا تھا، جگر یاد آیا​ ​ زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی​ …

بازیچئہ اطفال ہے دنیا مِرے آگے (مرزا غالب)

بازیچئہ اطفال ہے دنیا مِرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مِرے آگے ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مِرے آگے عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مِرا کام مجنوں کو بُرا کہتی ہے لیلیٰ مِرے اگے گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم …

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک (مرزا غالب)

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک کون جیتا ہے تِری زلف کے سر ہونے تک دامِ ہر موج میں ہے  حلقئہ صد کام نہنگ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب دل کا کیا  رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک ہم نے مانا کہ …

مِری داستانِ حسرت وہ سنا سنا کے روئے (سیف الدین سیف)

مِری داستانِ حسرت وہ سنا سنا کے روئے مِرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے کوئی ایسا اہلِ دل ہو کہ فسانئہ محبت میں اسے سناؤں وہ مجھے سنا کے روئے مِری آرزو کی دنیا دلِ ناتواں کی حسرت جسے کھو کے شادماں تھے اسے آج پا کے روئے تِری بے وفائیوں پر تِری کج …

گر چہ سو بار غمِ ہجر سے جاں گزری ہے (سیف الدین سیف)

گر چہ سو بار غمِ ہجر سے جاں گزری ہے پھر بھی جو دل پہ گزرنی تھی کہاں گزری ہے آپ ٹھہرے ہیں تو ٹھہرا ہے نظامِ عالم آپ گزرے ہیں تو اِک موجِ رواں گزری ہے ہوش میں آئے تو بتلائے تِرا دیوانہ دن گزرا ہے کہاں رات کہاں گزری ہے حشر کے بعد …

کوئی نہیں آتا سمجھانے (سیف الدین سیف)

کوئی نہیں آتا سمجھانے اب آرام سے ہیں دیوانے مجبوری سب کو ہوتی ہے       ملنا ہو تو لاکھ  بہانے دنیا بھر کا درد سہا ہے ہم نے تیرے غم کے بہانے جلوۃ جاناں کی تصویریں ایک محبت ، سو فسانے سیف وہ غم کہ تشنئہ خوں ہے ہم زندہ ہٰیں جس کے بہانے

آئے تھے ان کے ساتھ نظارے چلے گئے (سیف الدین سیف)

آئے تھے ان کے ساتھ نظارے چلے گئے وہ شب وہ چاندنی وہ نظارے چلے گئے شاید تمہارے ساتھ بھی واپس نہ آ سکیں وہ ولولے جو ساتھ تمہارے چلے گئے کشتی تڑپ کے حلقئہ طوفاں میں رہ گئی دیکھو تو کتنی دور کنارے چلے گئے محفل میں کس کو تاب حضورِ جمال تھی آئے …