Monthly archives: June, 2020

جب یہ چھوٹا سا اک بول زباں پر آتا ہے (پروین فنا سید)

حرفِ وفا جب یہ چھوٹا سا اک بول زباں پر آتا ہے !میں ڈر جاتی ہوں اور تمہیں اصرار کہ میں یہ حرف دہراتی جاؤں روزِ ابد تک کہتی جاؤں، گاتی جاؤں لیکن میں ڈر جاتی ہوں خود اپنے آپ سے اپنے دل کی سچائی سے جب یہ بول زبان تک آ جاتا ہے یوں …

ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے (فیض احمد فیض)

ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے رنگ و خوشبو کے حسن و خوبی کے  تم سے تھے جتنے استعارے تھے تیرے قول و قرار سے پہلے اپنے کچھا اور بھی سہارے تھے جب وہ لعل و گہر حساب کئے جو ترے غم نے دل پہ وارے تھے میرے …

پھر حریفِ بہار ہو بیٹھے (فیض احمد فیض)

پھر حریفِ بہار ہو بیٹھے جانے کس کس کو آج رو بیٹھے تھی، مگر اتنی رائیگاں بھی نہ تھی آج کچھ زندگی سے کھو بیٹھے تیرے در تک پہنچ کے لوٹ آئے عشق کی آبرو ڈبو بیٹھے ساری دنیا سے دور ہو جائے جو ذرا تیرے پاس ہو بیٹھے نہ گئی تیری بے رُخی نہ …

دیکھنے کی تو کسے تاب ہے لیکن اب اب تک (فیض احمد فیض)

فرشِ نومیدیِ دیدار دیکھنے کی تو کسے تاب ہے لیکن  اب اب تک جب بھی اس راہ سے گزرو تو کسی دکھ کی کسک ٹوکتی ہے کہ وہ دروازہ  کھلا ہے اب بھی اور اس صحن میں ہر سو یونہی پہلے کی طرح فرشِ نومیدیِ دیدار بچھا ہے اب بھی اورکہیں یاد کسی دل زدہ …

شامِ وعدہ کا ڈھل گیا سایا (نریش کمار شاد)

شامِ وعدہ کا ڈھل گیا سایا آںے والا ابھی نہیں آیا زندگی کے غموں کو اپنا کر ہم نے دراصل تم کو اپنایا جستجو ہی دلوں کی منزل تھی ہم نے کھو کر تجھے، تجھے پایا زندگی نام ہے جدائی کا آپ آئے تو مجھ کو یاد آیا ہم نے تیری جفا کے پردے میں …

خراب ہوں کہ جنوں کا چلن ہی ایسا تھا (شاذ تمکنت)

خراب ہوں کہ جنوں کا چلن ہی ایسا تھا کہ تیرا حسن، مرا حسنِ ظن ہی ایسا تھا ہر ایک ڈوب گیا اپنی اپنی یادوں میں کہ تیرا ذکر سرِ انجمن ہی ایسا تھا بہانہ چاہیے تھا جوئے شیر وشیریں کا کوئی سمجھ نہ سکا تیشئہ ظن ہی ایسا تھا حدِ ادب سے گریزاں نہ …

بچ بچا کر تو ہم چلے تھے بہت (باقی احمد پوری)

بچ بچا کر تو ہم چلے تھے بہت پھر بھی قسمت میں حادثے تھے بہت سنگ ریزہ جو میں نے پھینک دیا سطحِ دریا پہ دائرے تھے بہت ہم تری راہ گزر پہ کیوں آئے زندگانی کے راستے تھے بہت تو نے آتے ہی ختم کر ڈالے آرزوؤں کے سلسلے تھے بہت بات کچھ خاص …

ہم سے تنہائی کے مارے نہیں دیکھے جاتے (فرحت شہزاد)

ہم سے تنہائی کے مارے نہیں دیکھے جاتے بن ترے چاند ستارے نہیں دیکھے جاتے ہارنا دن کا ہے منظور مگر جانِ عزیز ہم سے گیسو ترے ہارے نہیں دیکھے جاتے دل پھنسا بھی ہو بھنور میں تو کوئی بات نہیں رنج میں ڈوبتے پیارے نہیں دیکھے جاتے جن کے پیروں میں سمندر تھے جھکائے …

نیل فلک کےا سم میں نقشِ اسیر کے سبب (منیر نیازی)

نیل فلک کےا سم میں نقشِ اسیر کے سبب حیرت ہے آب و خاک میں ماہِ منیر کے سبب بن میں علاحدگی سی ہے اس کے جمالِ سبز سے دائم فضا فراق کی شجرِ پیر کے سبب وسعتِ شہر تنگ دل سرما کی صبح سرد میں جاگی ہے ڈر کے خواب سے صورتِ فقیر کے …

ہو گئے دن جنہیں بھلائے ہوئے (انور شعور)

ہو گئے دن جنہیں بھلائے ہوئے آج کل ہیں وہ یاد آئے ہوئے میں نے راتیں بہت گزاری ہیں صرف دل کا دیا جلائے ہوئے اک اسی شخص کا نہیں مذکور ہم زمانے کے ہیں ستائے ہوئے سونے آتے ہیں لوگ بستی میں سارے دن کے تھکے تھکائے ہوئے مسکرائے بغیر بھی وہ ہونٹ نظر …