Monthly archives: June, 2020

تجھ سے بچھڑ کر کیا ہوں میں اب باہر آکر دیکھ (منیر نیازی)

تجھ سے بچھڑ کر کیا ہوں میں اب باہر آکر دیکھ ہمت ہے تو میری حالت آنکھ ملا کر دیکھ شام ہے گہری تیز ہوا ہے سر پہ کھڑی ہے رات رستہ گئے مسافر کا اب دیا جلا کر دیکھ دروازے کے پاس آ آ کر واپس مڑتی چاپ کون ہے اس سنسان گلی میں …

اگا سبزہ درو دیوار پر آہستہ آہستہ (منیر نیازی)

اگا سبزہ درو دیوار پر آہستہ آہستہ ہوا خالی صداؤں سے نگر اہستہ آہستہ گھرا بادل خموشی سے خزاں آثار باغوں پر ہلے ٹھنڈی ہواؤں میں شجر آہستہ آہستہ بہت ہی سست تھا منظر لہو کے رنگ لانے کا نشاں آخر یہ ہوا سرخ تر آہستہ اہستہ چمک زر کی اسے اخر مکانِ خاک میں …

اپنے گھر کو واپس جاؤ رو رو کر سمجھاتا ہے (منیر نیازی)

اپنے گھر کو واپس جاؤ رو رو کر سمجھاتا ہے جہاں بھی جاؤں میرا سایہ پیچھے پیچھے آتا ہے اس کو بھی تو جا کر دیکھو اس کا حال بھی مجھ سا ہے چپ چپ رہ کر دکھ سہنے سے تو انساں مر جاتا ہے مجھ سے محبت بھی ہے اس کو لیکن یہ دستور …

تُو ہے تو تِرے طالبِ دیدار بہت ہیں (منیر شکوہ آبادی)

تُو ہے تو تِرے طالبِ دیدار بہت ہیں یوسف ہے سلامت تو خریدار بہت ہیں پھر جائے خدائی تو بتوں سے نہ پھریں ہم پتھر میں بھی اللہ کے اسرار بہت ہیں وحدت کے طلب گاروں کو کثرت سے علاقہ میں ایک ہوں، تو ایک ہے، اغیار بہت ہیں باہر نہیں اس سلسہ سے اہلِ …

ان روزوں لطفِ حسن ہے آؤ تو بات ہے (منیر شکوہ آبادی)

ان روزوں لطفِ حسن ہے آؤ تو بات ہے دو دن کی چاندنی ہے پھر اندھیاری رات ہے اس لطفِ ظاہری کو سمجھتا ہوں خوب میں میری سنیں گے آپ یہ کہنے کی بات ہے اللہ کے بھی لفظ میں نقطہ کہیں نہیں حقا کہ لا شریک لہ تیری ذات ہے حوریں کہاں سے لائیں …

جس طرح ترکِ تعلق پہ ہے اصرار اب کے (مصطفیٰ زیدی)

شہناز جس طرح ترکِ تعلق پہ ہے اصرار اب کے ایسی شدت تو مرے عہدِ وفا میں بھی نہ تھی میں نے تو دیدہ و دانستہ پیا ہے وہ زہر جس کی جرات صفِ تسلیم و رضا میں بھی نہ تھی تو نے جس لہر کی صورت سے مجھے چاہا تھا ساز میں بھی نہ …

فن کار خود نہ تھی، مرے فن کی شریک تھی (مصطفیٰ زیدی)

شہناز فن کار خود نہ تھی، مرے فن کی شریک تھی وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی اترا تھا جس پہ بابِ حیا کا ورق ورق بستر کے ایک ایک شکن کی شریک تھی میں ایک اعتبار سے آتش پرست تھا وہ سارے زاویوں سے چمن کی شریک تھی وہ نازشِ ستارہ …

جنسِ محبت کیوں لائی ہو؟ (منصورہ احمد)

نظم یکے از نوادر جنسِ محبت کیوں لائی ہو؟ منڈی میں اس کا مندہ ہے نفرت ہی سب کا دھندا ہے بڑے بڑے بیوپاری آ کر اونچے اونچے دام لگا کر جتنی نفرت لے جاتے ہیں اُتنی نفرت دے جاتے ہیں منڈی کا رجحان تو دیکھو کتنی بھولی ہو، کہتی ہو اس مصروف بھری دنیا …

ہوا اس سے کہنا (محسن نقوی)

ہوا اس سے کہنا !ہوا صُبحدم اس کی آہستہ آہستہ کھلتی ہوئی آنکھ سے خواب کی سیپیاں چننے جائے تو کہنا !کہ ہم جاگتے ہیں ہوا اس سے کہنا کہ جو ہجر کی آگ پِیتی رُتوں کی طنابیں رگوں سے الجھتی ہوئی سانس کے ساتھ کَس دیں انھیں رات کے سرمئی ہاتھ خیرات میں نیند …

دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں (محسن نقوی)

دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں …