Monthly archives: August, 2020

وہ تو نہ مِل سکے ہمیں رُسوائیاں مِلیں (حکیم ناصر)

وہ تو نہ مِل سکے ہمیں رُسوائیاں مِلیں لیکن ہمارے عِشق کو رعنائیاں مِلیں آنکھوں میں اُن کی ڈُوب کے دیکھا ہے بارہا جِن کی تھی آرزُو نہ وہ گہرائیاں مِلیں آئینہ رکھ کے سامنے آواز دی اُسے اُس کے بغیر جب مُجھے تنہائیاں مِلیں آئے تھے وہ نظر مُجھے پُھولوں کے آس پاس دیکھا …

جوش پر تھیں صفت ابر بہاری آنکھیں (تعشق لکھنوی)

جوش پر تھیں صفت ابر بہاری آنکھیں بہ گئیں آنسوؤں کے ساتھ ہماری آنکھیں ہیں جلو میں صفت ابر بہاری آنکھیں اٹھنے دیتی ہیں کہاں گرد سواری آنکھیں کیوں اسیران قفس کی طرف آنا چھوڑا پھیر لیں تو نے بھی اے باد بہاری آنکھیں سامنے آ گئی گلگشت میں نرگس شاید پلکوں سے چیں بہ …

اپنے آنچل میں چھپا کر مرے آنسو لے جا (اظہر عنایتی)

اپنے آنچل میں چھپا کر مرے آنسو لے جا یاد رکھنے کو ملاقات کے جگنو لے جا میں جسے ڈھونڈنے نکلا تھا اسے پا نہ سکا اب جدھر جی ترا چاہے مجھے خوشبو لے جا آ ذرا دیر کو، اور مجھ سے ملاقات کے بعد سوچنے کے لیے روشن کوئی پہلو لے جا حادثے اونچی …

تم کو وحشت تو سکھا دی ہے، گزارے لائق (عمیر نجمی)

تم کو وحشت تو سکھا دی ہے، گزارے لائق اور کوئی حکم؟ کوئی کام، ہمارے لائق؟ معذرت! میں تو کسی اور کے مصرف میں ہوں ڈھونڈ دیتا ہوں مگر کوئی تمہارے لائق ایک دو زخموں کی گہرائی اور آنکھوں کے کھنڈر اور کچھ خاص نہیں مجھ میں نظارے لائق گھونسلہ، چھاؤں، ہرا رنگ، ثمر، کچھ …

مٹ گیا جب مٹنے والا پھر سلام آیا تو کیا (رام پرساد بسمل)

مٹ گیا جب مٹنے والا پھر سلام آیا تو کیا دل کی بربادی کے بعد ان کا پیام آیا تو کیا مٹ گئیں جب سب امیدیں مٹ گئے جب سب خیال اس گھڑی گر نام اور لیکر پیام آیا تو کیا اے دل نادان مٹ جا تو بھی کوئے یار میں پھر میری ناکامیوں کے …

خاص اِک شان ہے یہ آپ کے دیوانوں کی (جگر مراد آبادی)

خاص اِک شان ہے یہ آپ کے دیوانوں کی دھجیاں خود بخود اڑتی ہیں گریبانوں کی سخت دشوار حفاظت تھی گریبانوں کی آبرو موت نے رکھ لی ترے دیوانوں کی رحم کر اب تو جنوں! جان پہ دیوانوں کی دھجیاں پاؤں تک آپہنچیں گریبانوں کی گرد بھی مل نہیں سکتی ترے دیوانوں کی خاک چھانا …

کیا چیز تھی، کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی (جگر مراد آبادی)

کیا چیز تھی، کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی اُف کر کے وہیں بیٹھ گیا دردِ جگر بھی یہ مجرمِ الفت ہے، تو وہ مجرمِ دیدار دل لے کے چلے ہو تو لیے جاؤ نظر بھی کیا دیکھیں گے ہم جلوہِ محبوب کہ ہم سے دیکھی نہ گئی دیکھنے والے کی نظر بھی مایوس …

ہجر کی شب ہے اور اجالا ہے (خمار بارہ بنکوی)

ہجر کی شب ہے اور اجالا ہے کیا تصور بھی لٹنے والا ہے غم تو ہے عین زندگی لیکن غم گساروں نے مار ڈالا ہے عشق مجبور و نا مراد سہی پھر بھی ظالم کا بول بالا ہے دیکھ کر برق کی پریشانی آشیاں خود ہی پھونک ڈالا ہے کتنے اشکوں کو کتنی آہوں کو …

یہ دل آویزیِ حَیات نہ ہو ( آنند نرائن ملا)

یہ دل آویزیِ حَیات نہ ہو اگرآہنگِ حادثات نہ ہو تیری ناراضگی قبُول، مگر یہ بھی کیا، بُھول کر بھی بات نہ ہو زیست میں وہ گھڑی نہ آئے، کہ جب! ہات میں میرے، تیرا ہات نہ ہو ہنسنے والے! رُلا نہ اَوروں کو صُبح تیری کسی کی رات نہ ہو عِشق بھی کام کی …

یوں تو اوروں کو بھی ہر ممکنہ نعمت دی ہے (شبنم شکیل)

یوں تو اوروں کو بھی ہر ممکنہ نعمت دی ہے دینے والے نے مُجھے کرب کی دولت دی ہے کیا نہیں یہ بھی مشیت کی وسیع القلبی مُجھ کو ہر غم کے برتنے کی اجازت دی ہے زندگی کا کوئی احسان نہیں ہے مُجھ پر میں نے دُنیا میں ہر اِک سانس کی قیمت دی …