آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو (جاں نثار اختر)

آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو سایہ سا کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو جب شاخ کوئی ہاتھ لگاتے ہی چمن میں شرمائے لچک جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو صندل سی مہکتی ہوئی پُر کیف ہوا کا جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو اُوڑھے …

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں (احمد فراز)

  اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں  جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں   ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں   غمِ دنیا بھی غمِ یار میں شامل کر لو نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں   …

کبھی ہم خوبصورت تھے (احمد شمیم)

ریت پر سفر کا لمحہ کبھی ہم خوبصورت تھے کتابوں میں بسی خوشبو کی مانند سانس ساکن تھی!  بہت سے ان کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر دور کی جھیلوں میں بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے جو ہم سے دور تھے لیکن ہمارے پاس رہتے تھے ! …

دلِ من مسافرِ من (فیض احمد فیض)

    مِرے دل مِرے مسافر ہوا پھر سے حکم صادر کہ وطن بدر ہوں ہم تم دیں گلی گلی صدائیں کریں رخ نگر نگر کا کہ سراغ کوئی پائیں کسی یارِ نامہ بر کا  ہراک  اجنبی سے پوچھیں جو پتہ تھا اپنے گھر کا سرِ کوئے ناشنایاں ہمیں دن سے رات کرنا کبھی اِس …

بہت ملا نہ ملا زندگی سے غم کیا ہے (فیض احمد فیض)

بہت ملا نہ ملا زندگی سے غم کیا ہے متاعِ درد بہم ہے تو بیش و کم کیا ہے ہم ایک عمر سے واقف ہیں اب نہ سمجھاؤ کہ لطف کیا ہے مرے مہرباں ستم کیا ہے کرے نہ جگ میں الاؤ تو شعر کس مصرف کرے نہ شہر میں جل تھل تو چشمِ نم …

دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت (فیض احمد فیض)

دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت درباں کا عصا ہے کہ مصنف کا قلم ہے آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے جس دھجی کو گلیوں میں لئے پھرتے ہیں طفلاں یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے جس نور سے ہے شہر کی …

اس وقت تو یوں لگتا ہے (فیض احمد فیض)

  اس وقت تو یوں لگتا ہےاب کچھ بھی نہیں ہے مہتاب نہ سورج نہ اندھیرا نہ سویرا   آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا   ممکن ہے کوئی وہم تھا ممکن ہے سنا ہو گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا   …

بہار آئی تو جیسے یک بار ( فیض احمد فیض)

بہار آئی تو جیسے یک بار لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے وہ خواب سارے ،  شباب سارے جو تیرے ہونٹوں پہ مرمٹے تھے جو مِٹ کے ہر بار پھر جیئے تھے نکھر گئے ہیں گلاب سارے جو تیری یادوں سے مشکبو ہیں جو تیرے عشاق کا لہو ہیں اُبل پڑے ہیں عذاب سارے ملالِ …

گُل ہوئی جاتی ہےافسردہ سلگتی ہوئی شام (فیض احمد فیض)

موضوعِ سخن   گُل ہوئی جاتی ہےافسردہ سلگتی ہوئی شام دُھل کے نکلے گی ابھی چشمئہ مہتاب سے رات اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی  اور اُن ہاتھوں سے مس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہاتھ   اُن کا آنچل ہے کہ رُخسار کہ پیراہن ہے کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے …

گئے برس کی عید کا دن کیا اچھا تھا (پروین شاکر)

گئے برس کی عید کا دن کیا اچھا تھا چاند کو دیکھ کے اس کا چہرہ دیکھا تھا!   فضا میں کیٹس کے لہجے کی نرماہٹ تھی موسم اپنے رنگ میں فیض کا مصرعہ تھا   دعا کے بے آواز الوہی لمحوں میں وہ لمحہ بھی کتنا دلکش لمحہ تھا   ہاتھ اٹھا کر جب …