Category «قتیل شفائی»

اُلجھی ہوئی راہوں کا شیدا نہ کہا جائے (قتیل شفائی)

اُلجھی ہوئی راہوں کا شیدا نہ کہا جائے ہر ایک مسافر کو مجھ سا نہ کہا جائے میں اس کے تغافل کی تردید نہیں کرتا گو ایسا ہوا لیکن، ایسا نہ کہا جائے یادوں کی رفاقت میں ہر لمحہ گزرتا ہے مجھ کو کسی عالم میں تنہا نہ کہا جائے دُکھ درد چھپانے کا، شاید …

لکھ دیا اپنے در پہ کسی نے (قتیل شفائی)

لکھ دیا اپنے در پہ کسی نے اس جگہ پیار کرنا منع ہے پیار اگر ہو بھی جائے کسی کو اس کا اظہار کرنا منع ہے ان کی محفل میں جب کوئی جائے پہلئ نظریں وہ اپنی جھکائے وہ صنم جو خدا بن گئے ہیں ان کا دیدار کرنا منع ہے جاگ اٹھے تو آہیں …

شرمندہ انہیں اور بھی اے میرے خدا کر (قتیل شفائی)

شرمندہ انہیں اور بھی اے میرے خدا کر دستار جنہیں دی ہے انہیں سر بھی عطا کر لوٹا ہے سدا جس نے ہمیں دوست بنا کر ہم خوش ہیں اسی شخص سے پھر ہاتھ ملا کر ڈر ہے کہ نہ لے جائے وہ ہم کو بھی چرا کر ہم لائے ہیں گھر میں جسے مہمان …

چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال (قتیل شفائی)

چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال اک تو ہی دھنوان ہے گوری ، باقی سب کنگال ہر آنگن میں سجے نہ تیرے اجلے روپ کی دھوپ چھیل چھبیلی رانی تھوڑا گھونگھٹ اور نکال بھر بھر نظریں دیکھیں تجھ کو آتے جاتے لوگ دیکھ تجھے بدنام نہ کر دے ہرنی جیسی چال بیچ میں …

جب تصور مِرا چپکے سے تجھے چھو آئے (قتیل شفائی)

جب تصور مِرا چپکے سے تجھے چھو آئے اپنی ہر سانس سے مجھ کو تری خوشبو آئے   مشغلہ اب ہے مرا چاند کو تکتے رہنا رات بھر چین نہ مجھ کو کسی پہلو آئے   جب کبھی گردشِ دوراں نے ستایا مجھ کو مری جانب ترے پھیلے ہوئے بازو آئے   جب بھی سوچا …

جوبھی غنچہ ترے ہونٹوں پہ کھلا کرتا ہے (قتیل شفائی)

جوبھی غنچہ ترے ہونٹوں پہ کھلا کرتا ہے وہ مری تنگئی داماں کا گلہ کرتا ہے   دیر سے آج میرا سر ہے ترے زانو پر یہ وہ رتبہ ہے جو شاہوں کو ملا کرتا ہے   میں تو بیٹھا ہوں دبائے ہوئے طوفانوں کو تو مرے دل کے دھڑکنے کا گلہ کرتا ہے   …

یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے (قتیل شفائی)

یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے   وہی تو ہے سب سے زیادہ نکتہ چیں میرا جو مسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے   زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا گزار کر تِری زلفوں کے سائے سائے مجھے   وہ میرا دوست ہے …

راستے یاد نہیں راہنما یاد نہیں (قتیل شفائی)

راستے یاد نہیں راہنما یاد نہیں اب مجھے کچھ تری گلیوں کےسوا یاد نہیں   پھر خیالوں میں وہ بیتے ہوئے ساون آئے لیکن اب تجھ کو پپیہےکی صدا یاد نہیں   ایک وعدہ تھا جو شیشے کی طرح ٹوٹ گیا حادثہ کب یہ ہواکیسے ہوا یاد نہیں ہم دیا کرتے تھے اغیار کو طعنہ …

حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے (قتیل شفائی)

حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجئے گلے مل کر بھی وہ بیگانہ بن جائے تو کیا کیجئے   ہمیں سو بار ترکِ مے کشی منظور ہے لیکن نظر اس کی اگر میخانہ بن جائے تو کیا کیجئے   نظر آتا ہے سجدے میں جواکثر شیخ صاحب کو وہ جلوہ جلوۃ جانانہ بن …

اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لے مجھ کو (قتیل شفائی)

اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجالے مجھ کو میں ہوں تیرا تو نصیب  اپنا بنا لے مجھ کو   مَیں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن مَیں ہوں گر پھول تو جوڑے میں سجالے مجھ کو   ترکِ الفت کی قسم بھی کوئی ہوتی ہے قسم تو کبھی یاد تو کر …