Monthly archives: April, 2019

اپنے دل کی بات کو ہم نے رات بہت سمجھایا (فہمیدہ ریاض)

دل کی بات اپنے دل کی بات کو ہم نے رات بہت سمجھایا پہلو بدلے بستر میں اور دل کا درد دبایا اب حیران کھڑے تکتے ہیں اس کی پیاری صورت اپنی بات گنوا بیٹھے اور کچھ بھی ہاتھ نہ آیا جس کے دل میں درد نہیں ہم اس سے کیا کہہ بیٹھے کیا چمکیلا …

راہ وہ ہر خوشی کی چلتے ہیں (جون ایلیا)

راہ وہ ہر خوشی کی چلتے ہیں ہم بھی ہر روز غم بدلتے ہیں ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی  چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں میں اسی طرح تو بہلتا ہوں اور سب کس طرح بہلتے ہیں ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں کیا تکلف کریں یہ …

کتنے عیش سے رہتے ہوں گے،  کتنے اتراتے ہوں گے (جون ایلیا)

کتنے عیش سے رہتے ہوں گے،  کتنے اتراتے ہوں گے جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے شام ہوئی خوش باش یہاں کے میرے پاس آجاتے ہیں میرے بجھنے کا نظارہ کرنے آجاتے ہوں گے! وہ جو نہ آنے والا ہے نہ اس سے مجھ کو مطلب تھا آنے والوں …

کون ہے کس نے پکارا صدا کیسے ہوئی (سرمد صہبائی)

کون ہے کس نے پکارا صدا کیسے ہوئی یہ کرن تاریکئی شب سے رہا کیسے ہوئی اک اک پل میں اتر کر سوچتا رہتا ہوں میں نور کس کا ہے مرے خوں میں ضیا کیسے ہوئی خواہشیں آئیں کہاں سے کیوں اچھلتا ہے لہو رُت ہری کیوں کر ہوئی پاگل ہوا کیسے ہوئی اس کے …

شوق کا رنگ بجھ گیا یاد کے زخم بھر گئے (جون ایلیا)

شوق کا رنگ بجھ گیا یاد کے زخم بھر گئے کیا مری فصل ہو چکی کیا مرے دن گزر گئے رہگزرِ خیال میں دوش بدوش تھے جو لوگ وقت کی گرد باد میں جانے کہاں بکھر گئے شام ہے کتنی بے تپاک  شہر ہے کتنا سہمناک ہم نفسو کہاں ہو تم؟ جانے یہ سب کدھر …

ہجر کی آنکھوں سے آنکھیں تو ملاتے جائیے (جون ایلیا)

ہجر کی آنکھوں سے آنکھیں تو ملاتے جائیے ہجر میں کرنا ہے کیا یہ تو بتاتے جائیے بن کے خوشبو کی اداسی رہیے دل کے باغ میں دور ہوتے جائیے نزدیک آتے جائیے جاتے جاتے آپ اتنا کام تو کیجئے میرا یاد کا سرو ساماں جلاتے جائیے رہ گئی امید تو برباد ہو جاؤں گا …

نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی (بشیر بدر)

نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی بڑی آرزو تھی ملاقات کی شبِ ہجر تک کو یہ تشویش ہے مسافر نے جانے کہاں رات کی مقدر مری چشمِ پر آب کے برستی ہوئی رات برسات کی اجالوں کی پریاں نہانے لگیں ندی گنگنائی خیالات کی میں چپ تھا تو چلتی ہوا رک گئی …

تبدیدلی اس بھرے شہر میں کوئی ایسا نہیں جو مجھ راہ چلتے کو پہچان لے اور اواز دے ” اوئے سر پھرے” دونوں ایک دوسرے سے لپٹ کر وہیں گرد و پیش اور ماحول کو بھول کر گالیاں دیں، ہنسیں، ہاتھا پائی کریں پاس کے پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ کر گھنٹوں ایک دوسرے کی …

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے (حفیظ جونپوری)

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے    نہیں مرتے تو ایذا نہیں جھیلی جاتی اور مرتے ہیں تو پیماں شکنی ہوتی ہے   دن کو اک نور برستا ہے مری تربت پر رات کو چادرِ مہتاب تنی ہوتی ہے   لٹ گیا وہ ترے کوچے میں …

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں (سیف الدین سیف)

کِس طرح روکتا ہوں اشکوں کو کِس طرح  دل پہ جبر کرتا ہوں آج بھی کارزارِ ہستی میں ! جب ترے شہر سے گزرتا ہوں   اِس قدر بھی نہیں معلوم کِس محلے میں ہے مکاں تیرا کون سی شاخِ گل پہ رقصاں ہے رشک فردوس ، آشیاں تیرا جانے کِن وادیوں میں ٹھہرا ہے …