Monthly archives: May, 2020

رونے پہ مِرے ہنستے کیا ہو بے سمجھے نہ دیوانہ جانو (آرزو لکھنوی)

رونے پہ مِرے ہنستے کیا ہو بے سمجھے نہ دیوانہ جانو دل کس سے لگایا ہے تم نے ، تم درد کسی کا کیا جانو رونے پہ کسی کے کوئی ہنسے ، ہنسنے پہ کسی کے روئے کوئی جو بات ہے جس کی وہ جانے ہم کیا سمجھیں تم کیا جانو کہنے سے نہ کہنا …

بھولے بن کر حال نہ پوچھو بہتے ہیں اشک تو بہنے دو (آرزو لکھنوی)

بھولے بن کر حال نہ پوچھو بہتے ہیں اشک تو بہنے دو جس سے بڑھے بے چینی دل کی ایسی تسلی رہنے دو رسمیں اس اندھیر نگری کی نئی نہیں پرانی ہیں مہر پہ ڈالو رات کا پردہ ماہ کو روشن رہنے دو روح نکل کر باغِ جہاں سے باغِ جناں میں جا پہنچے چہرے …

دل جن کا گیا ہے رنج انہیں ، جو پاگئے خوش ہوتے ہیں (آرزو لکھنوی)

دل جن کا گیا ہے رنج انہیں ، جو پاگئے خوش ہوتے ہیں یہ اپنی اپنی قسمت ہے وہ ہنستے ہیں ہم روتے ہیں ہو چاہے کسی کی بربادی چھوٹے گی نہ آرائش ان کی لڑیاں ہیں یہاں اشکوں کی بندھی بالوں میں وہ موتی پروتے ہیں اُلفت میں سلیقہ جو جس کا انجام بگڑنا …

آ گئی پیری جوانی ختم ہے (آرزو لکھنوی)

آ گئی پیری جوانی ختم ہے صبح ہوتی ہے کہانی ختم ہے حسرتوں کا دل سے قبضہ اٹھ گیا غاصبوں کی حکمرانی ختم ہے ہو گیا ذوقِ نظارہ خود فنا یا بہارِ بوستانی ختم ہے وقتِ بینش کیفِ خود بینی کہاں پیاس ہے موجود پانی ختم ہے بجھ گیا دل ہو گئی گونگی زباں اگلی …

یہ جو دو اک بہار کے دن ہیں (آرزو لکھنوی)

یہ جو دو اک بہار کے دن ہیں زندگی میں شمار کے دن ہیں ظلم ہے عمر میں شمار ان کا ایسے کچھ انتظار کے دن ہیں جوشِ گل میں بھی خار کی ہے خلش اک مصیبت بہار کے دن ہیں ہے معین نفس کی آمد و شد عمر کتنی ، شمار کے دن ہیں …

وہ سرِ بام کب نہیں آتا (آرزو لکھنوی)

وہ سرِ بام کب نہیں آتا جب میں ہوتا ہوں تب نہیں آتا زہر نعمت ، نہ موت لائقِ شوق کیا کریں چین جب نہیں آتا بھولی ہوئی باتوں پہ تیری دل کو یقین پہلے آتا تھا اب نہیں آتا اُن کے آگے بھی دل کو چین نہیں بے ادب کو ادب نہیں آتا آرزو …

وصل جب ہوتا ہے ان کا میں یہاں ہوتا نہیں (بیخود دہلوی)

وصل جب ہوتا ہے ان کا میں یہاں ہوتا نہیں یہ زمیں ہوتی نہیں یہ آسماں ہوتا نہیں فصلِ گل میں تنکے چننے کا نہیں سودا مجھے کیا گزارا باغ میں بے آشیاں ہوتا نہیں برق کا گرنا سنا ، صیاد کا کہنا سنو چار تنکوں کا اجڑنا داستاں ہوتا نہیں کچھ نرالی وضع کا …

یہ وہ منزل ہے جہاں سینکڑوں مر جاتے ہیں (بیخود دہلوی)

یہ وہ منزل ہے جہاں سینکڑوں مر جاتے ہیں پاؤں رکھتے ہی تِری راہ میں سر جاتے ہیں اے اجل تُو تو برے وقت میں کام آتی ہے پھر یہ کیوں لوگ ترے نام سے ڈر جاتے ہین میرے عاشق نہ بنو تم مِرے معشوق رہو لطف بھی جور ہیں جب حد سے گزر جاتے …

جس میں وہ جلوہ نما تھا دلِ شیدا ہے وہی (بیخود دہلوی)

جس میں وہ جلوہ نما تھا دلِ شیدا ہے وہی ہم سے پردہ ہے مگر محملِ لیلا ہے وہی جو نکل جائے تمنا نہیں کہتے اس کو جو کھنکتی رہے پہلو میں تمنا ہے وہی لے چلے دل میں تِرا داغِ محبت واے جان دے کر جو خریدا ہے یہ سودا ہے وہی عشق کو …