Monthly archives: November, 2020

اگر کچھ تھی تو بس یہ تھی تمنا آخری اپنی (شعری بھوپالی)

اگر کچھ تھی تو بس یہ تھی تمنا آخری اپنی کہ وہ ساحل پہ ہوتے اور کشتی ڈوبتی اپنی ہمیں تو شامِ غم میں کاٹنی ہے زندگی اپنی جہاں وہ ہیں وہیں اے چاند لے جا چاندنی اپنی نہ ہے یہ اضطراب اپنا نہ ہے یہ بے خودی اپنی تری محفل میں شاید بھول آیا …

اک خانماں خراب کی دولت کہیں جسے (راز چاند پوری)

اک خانماں خراب کی دولت کہیں جسے وہ درد دل میں ہے کہ محبت کہیں جسے رعنائی خیال کے قربان جائیے صورت ہے وہ نظر میں حقیقت کہیں جسے درد فراق یار کی مجبوریاں بجا اتنا تو ہو نہ شور قیامت کہیں جسے دے سکتا ہو تو دے مجھے داد ستم کشی یا وہ سلوک …

کام آسکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں (اختر شیرانی)

کام آسکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں اس بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں مجھ کو یہ اعتراف دعاؤں میں ہے اثر جائیں نہ عرش پر جو دعائیں تو کیا کریں اک دن کی بات ہو تو اسے بھول جائیں ہم نازل ہوں دل پہ روز بلائیں تو کیا کریں ظلمت …

ہم نے آداب غم کا پاس کیا (سحر انصاری)

ہم نے آداب غم کا پاس کیا نقد جاں کو زیاں قیاس کیا زیست کے تجربات کو ہم نے مثل آئینہ انعکاس کیا خبر آگہی کے پردے میں عمر بھر ماتم حواس کیا کیسے اک لفظ میں بیاں کر دوں دل کو کس بات نے اداس کیا آ گیا جب سلیقئہ تعمیر قصر ہستی کو …

سنو! اب ہم محبت میں بہت آگے نکل آئے (خالد معین)

سنو! اب ہم محبت میں بہت آگے نکل آئے کہ اک رستے پہ چلتے چلتے سو رستے نکل آئے اگر چہ کم نہ تھی، چارہ گران شہر کی پرسش مگر! کچھ زخم نادیدہ بہت گہرے نکل آئے محبت کی تو کوئی حد، کوئی سرحد نہیں ہوتی ہمارے درمیاں یہ فاصلے، کیسے نکل آئے بہت دن …

نکتہ چیں ہے، غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے (مرزا غالب)

نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبئہ دل اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے کھیل سمجھا ہے کہیں چھوڑ نہ دے بھول نہ جائے کاش یوں بھی ہو کہ بن …

خموش لب ہیں جھکی ہیں پلکیں، دلوں میں الفت نئی نئی ہے (شبینہ ادیب کانپوری)

خموش لب ہیں جھکی ہیں پلکیں،  دلوں میں الفت نئی نئی ہے ابھی تکلف ہے گفتگو میں ابھی محبت نئی نئی ہے ابھی نہ آئے گی نیند تم کو ، ابھی نہ ہم کو سکوں ملے گا ابھی تو دھڑکے گا دل زیادہ، ابھی یہ چاہت نئی نئی ہے بہار کا آج پہلا دن ہے …

اندرونِ شہر کی ایک لڑکی کے نام (سرمد صہبائی)

اندرونِ شہر کی ایک لڑکی کے نام وہ احطیاطوں کی پُر پیچ گلیوں سے شرم و حیا کے دبے پاؤں نکلی کہ دریا کے اُس گھاٹ خوابوں کا جنگل تھا اُس کے لہو میں جوانی کی کچی مہک سرسرائی گھنے کھیت میں پیاسی خواہشوں کے چشمے پہ اس نے کنوارے بدن کو پُراسرار عریاں کی …

سرد راتوں کی رِدا ، ڈوبتی نیندوں کی تھکن (سرمد صہبائی)

ان کہی باتوں کی تھکن سرد راتوں کی رِدا ، ڈوبتی نیندوں کی تھکن صبح کے ہاتھوں سے ٹوٹی مرے خوابوں کی تھکن شل ہوئے جاتے ہیں ہر پیڑ کے سوکھے بازو ڈھل گئی زرد خزاؤں میں بہاروں کی تھکن باغ میں پھیلتی تنہائی کے بوجھل پاؤں گِرتے پتوں کی تھکن ، گرم دوپہروں کی …

آنکھ تمہاری مست بھی ہے اور مستی کا پیمانہ بھی (ساغر نظامی)

آنکھ تمہاری مست بھی ہے اور مستی کا پیمانہ بھی ایک چھلکتے ساغر میں مے بھی ہے میخانہ بھی بے خودئ دل کا کیا کہنا سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں ہستی سے مانوس بھی ہوں ہستی سے بیگانہ بھی حسن نے تیرے دنیا میں کیسی آگ لگا دی ہے برق بھی شعلہ برپا …